Bayaan
Milaap
[Verse 1]
نہ ہی ہوش نہ فکر نے کچھ کہا
نہ کتابوں نے بتائی جو تھی بات
پھر فراق کی نظر ہوا وسل
پھر شراب میں اُتر گئی یہ رات، رات

[Verse 2]
غلطیوں میں پل کے بھی
خواہشوں کی بجھ سکے نا آر
تھک گیا ہوں جل کے بھی
روشنی میں ڈھل سکے نہ رات
گِر کے بھی، سنبھل کے بھی
خود سے کیوں نہ ہو سکے میلاپ

[Verse 3]
دیکھا دیکھا سا ہے عکس سامنے
شخص یہ میرے کبھی رہا تھا ساتھ
پھر گماں میرا ہے آئینہ شکن
پھر قرار بھی نہ تھا مے میرا ہاتھ

[Instrumental-Break]